اٹھا لے جائیں گلشن سے کدھر ہم آشیاں اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اٹھا لے جائیں گلشن سے کدھر ہم آشیاں اپنا (1939)
by وحیدالدین احمد وحید
324137اٹھا لے جائیں گلشن سے کدھر ہم آشیاں اپنا1939وحیدالدین احمد وحید

اٹھا لے جائیں گلشن سے کدھر ہم آشیاں اپنا
ہوا ہے عین فصل گل میں دشمن باغباں اپنا

کوئی شب اور وہ رشک قمر ہے مہماں اپنا
دکھا لے چار دن کی چاندنی یہ بھی سماں اپنا

نہیں ہیں کون سی جا موت کی حسرت میں سرگرداں
فلک کرتا ہے وعدہ دیکھیے پورا کہاں اپنا

برے دن میں زمیں کب پاؤں کے نیچے ٹھہرتی ہے
کیا کرتے ہیں شکوہ ہم نہیں ہے آسماں اپنا

چمن نازاں ہے کیا اپنی بہار چند روزہ پر
لیے جاتا ہے دل شوق بہار جاوداں اپنا

پلک کو دے کے جنبش پھر گئی ہم سے جو آنکھ ان کی
ہوا پر اڑ گئی کشتی اٹھا کر بادباں اپنا

نہیں ہوش و خرد کی برہمی سودائے گیسو میں
اندھیری رات میں یہ لٹ رہا ہے کارواں اپنا

بنایا دونوں عالم سے جدا اک اور ہی عالم
جو پوچھا بے خودی سے ایک دن نام و نشاں اپنا

سمجھ رکھو وہیں وہ خود نما بھی جلوہ گر ہوگا
صفائے دل دکھاتی ہوگی آئینہ جہاں اپنا

حلاوت سے مزے سے لطف و شیرینی سے مملو ہے
زباں اپنی سخن اپنا کلام اپنا بیاں اپنا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse