غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو (1933)
by منشی ٹھاکر پرساد طالب
324011غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو1933منشی ٹھاکر پرساد طالب

غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو
جو گرفتار محبت ہے وہ آزاد نہ ہو

آگ اس گھر میں لگے تجھ سے جو آباد نہ ہو
خاک ہو جائے وہ دل جس میں تری یاد نہ ہو

بھول جانے سے ترے مجھ کو یہ ہوتا ہے یقیں
کیا عجب موت کو بھی شکل مری یاد نہ ہو

لے اڑی ہے تو اسے اس کی گلی میں پہونچا
اے صبا خاک ہماری کہیں برباد نہ ہو

دم میں سو رنگ بدلتا ہوں تپ فرقت میں
کیسے عاجز مری تصویر میں بہزاد نہ ہو

خواب میں بھی رہے اس زلف مسلسل کا خیال
یا خدا قید محبت سے دل آزاد نہ ہو

عقل سے کام نہ رکھے کبھی عاشق تیرا
بندۂ پیر مغاں قائل زہاد نہ ہو

بیڑیاں کتنی ہی تنکوں کی طرح توڑی ہیں
دست وحشت کہیں شاکی ترا حداد نہ ہو

بے طرح باغ میں گلچیں نے ہوا باندھی ہے
نکہت گل کہیں گلزار میں برباد نہ ہو

شب کا ہنگام ہے راحت سے وہ آرام کریں
گوش ضو ان کے الٰہی مری فریاد نہ ہو

طالباؔ مرنے پہ راضی ہوں مگر خوف یہ ہے
قتل کے بعد بھی کوئی ستم ایجاد نہ ہو

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse