کیا میکدہ ہے عشق حقیقت میں یار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا میکدہ ہے عشق حقیقت میں یار کا (1939)
by وحیدالدین احمد وحید
324140کیا میکدہ ہے عشق حقیقت میں یار کا1939وحیدالدین احمد وحید

کیا میکدہ ہے عشق حقیقت میں یار کا
بے خود کا ہے جو حال وہی ہوشیار کا

کیا محو عشق ہوں مجھے اتنی نہیں خبر
فرقت کی شب ہے روز ہے یا وصل یار کا

جو چاہے وہ سلوک کرے حسرت بقا
میں اور ساتھ زندگئ مستعار کا

پہلو میں اب کہاں ہے وہ دل وہ ہجوم یاس
کیا جلد مٹ گیا ہے نشان اس دیار کا

باتیں بھی ہیں تو وہ ہیں کہ ہو اور غم سوا
کیا جانیں کس طرف کو ہے دل غم گسار کا

گلشن میں منتشر تو ہیں اوراق گل تمام
کیسا تھا کچھ نہ پوچھو زمانہ بہار کا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse